مضامین

بے حیائی کی سزا قرآن کی روشنی میں

بے حیائی کی سزا قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم میں سے جو دو شخص بےحیائی کا ارتکاب کریں تو تم ان کو اذیت پہنچاؤ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔

” دو شخصوں کی بےحیائی “کی تفسیر میں متعدد اقوال: ۔

اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے بعض مفسرین نے کہا اس سے مراد کنوارہ مرد اور کنواری عورت ہے اور اس سے پہلی آیت میں شادی شدہ عورتیں مراد تھیں اس کی دلیل یہ ہے : ۔بے حیائی کی سزا قرآن کی روشنی میں

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :۔

سدی نے کہا اس آیت میں کنواری لڑکیاں اور کنوارے لڑکے مراد ہیں جن کا نکاح نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر وہ بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ان کو (مار پیٹ سے) ایذا پہنچاؤ۔ ابن زید کا بھی یہی قول ہے۔

بے حیائی کی سزا قرآن کی روشنی میں

بعض نے کہا پہلی آیت میں زنا کار عورتیں مراد تھیں اور ان کو مار پیٹ سے ایذا پہنچاؤ‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ مجاہد نے اس کی تفسیر میں کہا ہے اس آیت سے زناہ کرنے والے مرد مراد ہیں ‘ اور بعض نے کہا اس آیت میں مرد اور عورت دونوں مراد ہیں خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو مار پیٹ کر ایذا پہنچائی جائے یہ عطا اور حسن بصری کا قول ہے۔

(جامع البیان ج ٤ ص ٢٠٠‘ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

بے حیائی کی سزا قرآن کی روشنی میں

ایذاء پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس بےحیائی پر ملامت کی جائے اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے اور مار پیٹ کی جائے۔ حسن بصری کا قول یہ ہے کہ عورتوں کو پہلے ملامت کی جائے اور مارا جائے اور پھر گھروں میں قید کردیا جائے اور اس آیت کا حکم مقدم ہے اور اس سے پہلی والی آیت کا حکم موخر ہے ‘ بہرحال جمہور مفسرین کے نزدیک ان دونوں آیتوں کا حکم سورة نور سے منسوخ ہوگیا جس میں کنواروں کے لئے زنا کی حد سو کوڑے بیان کی گئی ہے اور احادیث متواترہ سے جن میں شادی شدہ زانیوں کی حد رجم (سنگسار کرنا) بیان کی گئی ہے البتہ ابو مسلم کے نزدیک پہلی آیت سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی جنس کے ساتھ شہوانی لذت حاصل کرتی ہیں اور دوسری آیت سے مراد وہ مرد ہیں جو ایک دوسرے سے عمل قوم لوط (اغلام) کرکے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ابو مسلم کے نزدیک یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہیں لیکن یہ قول ضعیف ہے کیونکہ صحابہ کرام اور فقہاء تابعین نے عمل قوم لوط کی حرمت پر اس آیت سے استدلال نہیں کیا۔بے حیائی کی سزا قرآن کی روشنی میں

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button