مضامین

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا اذان دینے کا واقعہ

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد اذان دینے کا واقعہ

حضرت بلال رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :  زیارت کے بغیر اذان میں لطف نہیں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو۔ یہ کہہ کر کہ اب مدینہ میں میرا رہنا دشوار ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریبا چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

ما ھذا الجفوۃ یا بلال اما ان لک ان تزور نی یا بلال۔

اے بلال (حضرت بلال رضی اللہ عنہ)  تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا کیا ہماری ملاقات کو تیرا جی نہیں چاہتا

خواب سے بیدار ہوتے ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک یا سیدی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجد نبوی میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں ،جب نہ پایا تو۔

فاتی قبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انو رپر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا

اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا تھا کہ آ کر مل جاؤ   غلام حلب سے حاضر ہے ۔ یہ کہہ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو گئے۔ اور مزار پر انوار کے پاس گر پڑے کافی دیر بعد ہوش آیا تو اتنے میں سارے مدینے میں اطلاع ہو گئی کہ مؤذن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت بلال رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے’ جوان ‘ مرد عورتیں اور بچے اکٹھے ہو گئے۔ اور عرض کی کہ ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوب خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو

 اشھد ان محمدا لرسول اللہ

     کہتےوقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب کسے دیکھو ں گا۔

   

بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما سے عرض کی جائے جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لئے کہیں گے تو وہ انکار نہ کر سکیں گے۔ ایک صاحب جا کر شہزادوں کو بلا لائے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا۔

یا بلال نشتہی نسمع اذانک الذی کنت تؤذن لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی المسجد۔

بلال آج ہمیں وہی اذان سناؤ جو ہمارے نانا جان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے تھے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ رہا ۔ لہذا اسی مقام پر کھڑے ہو کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ  نے اذان دینا شروع کی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیتے تھے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا اذان دینے کا واقعہ

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے  بعد کی  کیفیات

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے  بعد کی  کیفیات روایت میں یوں بیان ہوتیں ہیں۔

فلما ان قال اللہ اکبر اللہ اکبر ارتجت المدینۃ فلما ان قال اشھد ان لا الہ الا اللہ ازدادت و فلما ان قال اشہد ان محمدا رسول اللہ خرج العواتق خدو رھن و قالوا بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فما رئی یوم اکثر باکیاً ولا باکیۃً بالمدینۃ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من ذالک الیوم۔

(ابن عساکر – بحوالہ الصلات والبشر)

جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بآواز بلند اذان کے ابتدائی کلمات ادا کرنے شروع کئے تو اہل مدینہ سسکیاں لے لے کر رونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات مین اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ (اشہدا ن محمدا رسول اللہ )کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں۔ سبھی یوں تصور کرنے لگے جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ تشریف لے آئے ہیں۔ (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اہل مدینہ پر اس دن سے بڑھ کر اتنی رقت کبھی طاری نہیں ہوئی

 

اقبال ؒ اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ترانہ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

 

اذان ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی

نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

اداء دید سراپا نیاز تھی تیری

کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

 

صاحب قاموس کا دلچسپ استنباط

صاحب قاموس فرماتے ہیں کہ اس روایت سے زیارت روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر استدلال کرنے کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ یہ خواب کا واقعہ ہے غلط ہے ۔یہ فقط خواب کا واقعہ ہی نہیں ،  بلکہ یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کا عمل ہے

بل علی فعل بلال و ھو صحابی لا سیما فی خلافۃ عمر رضی اللہ عنہ و الصحابۃ متوافرون لا تخفی عنھم ھذہ القصۃ فنفر بلال فی زمن صدر الصحابۃ لم یکن الا للزیارۃ والسلام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

(الصلات والبشر فی الصلاۃ علی خیر البشر – ۱۵۶)

سیدنا بلال ؓ صحابی رسول ہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا یہ عمل خصوصاً ًخلافت عمر رضی اللہ عنہ اور کثیر صحابہ کی موجودگی میں یہ واقعہ رونما ہوا اور ان پر یہ بات مخفی بھی نہ تھی (لہذا یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی) کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دو ر صحابہ ؓ میں روضہ رسول کی حاضری دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے کے لئے سفر کیا۔

 

 


  ماخوذ از کتاب:  مشتاقان جمال نبوی کی کیفیات جذب و  مستی

مصنف :   بدر المصنفین شیخ الحدیث محقق العصر حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری(بانی ، جامعہ اسلامیہ لاہور)۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button