مضامین

اسلام لانے کے بعد صحابہ کی سب سے بڑی خوشی

اسلام لانے کے بعد صحابہ کی سب سے بڑی خوشی

اسلام لانے کے بعد صحابہ کی سب سے بڑی خوشی اس بات پر تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خوشخبری دی تھی کہ انہیں قیامت میں میری ملاقات کا شرف حاصل ہو گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

امتی الساعۃ؟

قیامت کب آئے گی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وما اعددت لھا؟

تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟

اس نے عرض کیا

لا شئی الا انی احب اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم

میرے پاس کوئی عمل نہیں مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کی بات سن کر فرمایا۔

انت مع من احببت۔

تجھے اپنے محبوب کی سنگت ضرور نصیب ہو گی۔ ( صحابہ کی سب سے بڑی خوشی )۔

(البخاری – ۲ = ۵۲۱)

یعنی اگر تو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو گھبرا مت تجھے میری معیت حاصل ہو گی۔( صحابہ کی سب سے بڑی خوشی )۔

اسلام لانے کے بعد صحابہ کی سب سے بڑی خوشی

مولانا احمد علی سہارنپوری لفظ معیت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

المراد بالمعیۃ ھنا معیۃ خاصۃ وہی ان یحصل فیہا الملاقاۃ بین المحب و المحبوب

(حاشیہ البخاری – ۲ = ۵۲۱)

یہاں معیت خاصہ مراد ہے اور وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی محب کو محبوب کی ملاقات کا شرف عطا کرے گا

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ خوش خبری ہم نے سنی تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

فما فرحنا بشی ء فرحنا بقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم انت مع من احببت

۔(اسلام لانے کے بعد) آج تک کبھی اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ہوئے کہ محبت کرنے والے کو محبوب کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا۔

اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ وجد میں آ گئے اور کہنے لگے۔

انا احب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ابابکر و عمر و ارجو ان اکون بحبی ایاھم و ان لم اعمل بمثل اعمالھم

اگرچہ میں ان پاکیزہ ہستیوں کی طرح عمل نہیں کر سکا مگر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم’ ابوبکر ؓ ‘ اور عمر ؓ کے ساتھ محبت رکھتا ہوں۔ اور امید ہے کہ اسی محبت کی بنا پر ان کا ساتھ نصیب ہو جائے گا۔

(البخاری – ۲ – ۵۲۱)

یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کے وصال کا وقت آتا تو وہ افسوس کرنے والوں کو کہتے کہ خوشی کرو ہماری ملاقات اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونے والی ہے۔’ وہ بجائے آنسو بہانے کے مسکراتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں پہنچ جاتے۔

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے بارے مروی ہے۔

لما احتضر بلال رضی اللہ عنہ نادت امرأتہ واحزنا ہ فقال لھا وا طرباہ غدا القی الاحبۃ محمد او صحبہ۔

جب ان کے وصال کا وقت آیا تو ان کی اہلیہ نے افسوس کا اظہار کرنا شروع کیا تو انہوں نے فرمایا آج ہی تو خوشی کا دن ہے کہ میں اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی ملاقات کا شرف پانے والا ہوں

 


  ماخوذ از کتاب:  مشتاقان جمال نبوی کی کیفیات جذب و  مستی

مصنف :   بدر المصنفین شیخ الحدیث محقق العصر حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری(بانی ، جامعہ اسلامیہ لاہور)۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button