مضامین

قاعدہ المشقة تجلب التيسير: مشقت آسانی کا سبب ہے

قاعدہ المشقة تجلب التيسير: مشقت آسانی کا سبب ہے

پانچ بڑے قاعدے میں سے یہ دوسرا قاعدہ ہے, امام سیوطی اور ابن  نجیم فرماتے ہیں کہ  شریعت کی تمام رخصت اور سہولیت اس قاعدے کے تحت ہے .

قاعدہ کے مفردات   کے معانی:

المشقۃ :

کا معنى ہے دشواری , پریشانی  , تکلیف اور مشکل وغیرہ .

لیکن یہاں وہ مشقت  اور دشواریاں اور پریشانیاں مراد ہیں جو تحمل وبرداشت سے باہر ہو .

تجلب:

یہ جلب کا فعل مضارع ہے جو جلب سے مشتق ہے اور اس کا معنى ہے کسی چیز کو کسی جگہ سے کھینچ کر لانا  اور یہاں اس کا معنى ومراد یہ ہے کہ ناقابل برداشت مشقت ودشواریاں سہولت اور آسانی کا سبب ہے

التیسیر:

یسر سے ماخوذ ہے جو عسرت اور دشواری کا برعکس ہے اور اس کا معنى ہے سہولت اور آسانی وغیرہ.

قاعدہ کا اجمالی معنى:

اللہ تعالى نے اپنے بندوں کو دین شریعت اوامر اور نواہی سے اپنی عبادت کا مکلف کیااور ان اوامر اور نواہی کی فرما برداری کرنا مشقت اور دشواری سے خالی نہیں ہے  لیکن اس  میں اسقدر مشقت اور دشواری ہے جو معمولی اور  قابل تحمل و برداشت ہے ہاں اگر ان اوامر اور نواہی کو بجا لانے میں اس قدر مشقت اور دشواری لاحق ہو جو غیر معمولی  اور ناقابل رداشت ہے تو ایسی مخصوص حالت میں شریعت مطہرہ  بندے کی رعایت کرتے ہوئے اس  قدر اس سے تخفیف کردیتی ہے جو اس کے حالت کے مطابق ہو اور وہ اسے بآسانی انجام دے سکے .

مشقت کے اقسام:

امام عز الدین بن عبد السلام نے مشقت کی دو قسمیں بیان کی ہیں

  1. وہ مشقت جس سے غالبا تمام عبادت خالی نہیں ہے یعنی وہ مشقت جو عبادت کیساتھ لازم ملزوم ہے جیسے  : وضو کرنے کی مشقت خاص جب ٹھنڈی کا وقت ہو لیکن یہ کہ اس  سے انسان کو کوئی نقصان لاحق نہیں ہوتا اسی طرح ٹھنڈک اور گرمی کے وقت نماز پڑھنے کی مشقت خاص کر فجر کی نماز وغیرہ,

اس قسم کی مشقت اور دشواری سے شریعت کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے اور نا ہی اس میں کوئی تخفیف ہوتی ہے کیونکہ اگر عبادت کیساتھ لازم وملزوم مشقت سے عبادت میں تخفیف اور اسقاط کا حکم جاری ہوتا تو سرے سے عبادت کا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا او ر کوئی انسان عبادت ہی نہیں کرتا.

  1. وہ زائد مشقت جس سے تمام عبادت عام طور پر خالی ہوتی ہے یعنی وہ عبادت کیساتھ لازم وملزوم نہیں ہوتی لیکن کبھی کبھی عبادت کے وقت پیش آجاتی ہے حالانکہ بینادی طور پر عبادت اس مشقت سے خالی ہے .

اور وہ  زائد مشقت جو عبادت میں پیش آتی ہے اس کی تین قسمیں ہیں :

۱-خطرنا مشقت اور دشواری جیسے جان یا جسم کا کوئی حصہ جانے کا خطرہ ہو تو  اس قسم کی مشقت اور پریشانیاں بالاتفاق رخصت وتخفیف, سہولت اور آسانی کا سبب ہے .

۲-ہلکی اور معمولی دشواری جیسے دانت اور سر میں معمولی درد وغیرہ . تو اس قسم کی مشقت اور پریشانیاں بالاتفاق کا کوئی اعتبار نہیں ہے نیز  رخصت اور سہولت کا سبب بھی نہیں ہے [ ظاہریہ کے خلاف].

۳-درمیانہ مشقت یعنی وہ مشقت اور دشواریاں جو اس قدر بھانک نہ ہو کہ اس کو پہلی قسم میں شمار کی جائے اور اتنی معمولی بھی نہیں کہ اس کو دوسری قسم میں شمار کی جائے چنانچہ ان میں جو پہلی قسم سے زیادہ قریب ہو اس  کو اس کے حکم میں شامل کریں گے اور اس سے رخصت حاصل ہوگی  اور جو دوسری قسم سے زیادہ مشابہ ہو اس کو اس کے حکم میں شامل کریں گےچنانچہ اس سے کوئی رخصت حاصل نہیں ہوگی.

موجب تخفیف ومشقت کا ضابطہ :

وہ مشقت جو موجب تخفیف اور رخصت ہے اس کی دو قسمیں ہیں :

  1. وہ مشقت جس کو شریعت مطہرہ نے بذات کسی وصف منضبط کیساتھ جوڑدیا ہو    چنانچہ جوں جوں  یہ وصف منضبط پایا جائے گا,  رخصت وتخفیف , سہولت اور آسانی بھی  پائی جائے گی.جیسے :

سفر:

سفر میں قصر نماز پڑھنا , ماہ رمضان کا روزہ نہ رکھنا , نماز جمع کرکے پڑھنا .

بیماری:

کوئی بیمار شخص اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے استطاعت نہیں رکھتاہے تو بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے گا.

اکراہ:

زبردستی اور اجباری.

نسیان:

بھول چوک وغیرہ .

جہل:

نا دانشتہ اور جہالت کی بنیاد پر کوئی کام انجام دینا.۔

نقص:

کمی اور نقصان جیسے نابالغ بچہ اور مجنون کو تکلیف سے معاف کردیا گیا. وغیرہ.

  1. وہ مشقت جس کو شریعت نے کسی وصف منضبط کیساتھ نہیں جوڑا ہے اس کے ضابطے میں علماء کرام کا اختلاف ہے  اس میں راجح قول یہ ہے  انسا ن کی حالت مختلف ہے اور قوت جسم بھی مختلف ہے لہذا ایک ہی بیماری بیک وقت کسی کیلئے باعث تخفیف ہے اور کسی کیلئے نہیں ہے چنانچہ بندوں کی حالات اور قوت تحمل اور زمانہ اور مکان کے اختلاف سے حکم بھی مختلف ہوگا  مثال کے طور پر  بخار  اس میں ہم یہ نہیں کہ سکتے ہیں کہ  اس میں کافی مشقت ہے چنانچہ یہ تخفیف کا باعث ہے اور یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ اس میں معمولی مشقت ہے چنانچہ  یہ تخفیف کا سبب بن نہیں سکتا کیونکہ یہ نسبی چیز ہے کسی کیلئے کافی پریشانی اور کسی کیلئے معمولی لہذا ہر انسان اپنے نفس کا فقیہ ہے  لیکن خوف خدا شامل حال ہونا چائے .

شریعت میں تخفیف اور سہولت کے اقسام:

شریعت میں تخفیف کی سات قسمیں ہیں :

معاف کردینا:

یعنی کلی طور عبادت کو بندے معاف اور ساقط کردینا جیسے حیض کے وقت عورتوں سے نماز کو ساقط کرنا.

بدل:

یعنی کسی پر مشقت عبادت  کے بدلے آسان عبادت کرنے کا حکم جیسے مخصوص وقت میں تیمم کو وضوء کا بدیل قرار دینا.

تنقیص:

یعنی عبادت کو اس مشروع مقدار سے کچھ کم کرکے بندوں کو سہولت مہیا کرنا جیسے : مسافر کیلئے رباعی نماز دو دو رکعت پڑھنا .

رخصت:

یعنی وہ کام جو شریعت کی روشنی میں جائز نہیں ہونی چائے مگر شریعت نے مخصوص وقت رخصت قرار دیا ہے جیسے اچھو لگے تو پانی میسر نہ ہونے پر شراب کے گھونٹ سے اسے دور کرنا , پانی نہ ملے تو پتھروں سے استنجا کرکے باقی نجاست کیساتھ نماز پڑھنا وغیرہ.

تقدیم:

کسی عبادت کو اس کے اصلی وقت سے پہلے ادا کرنے کی اجازت دیکر سہولت فراہم کرنا جیسے سفر میں نماز عصر کو ظہر کیساتھ مقدم کر کے پڑھنا اور عشاء کو مغرب کیساتھ مقدم کرکے پڑھنا .

تأخیر:

کسی عبادت کو اس کے اپنی وقت سے تاخیر کر کے انجام دینے کی اجازت دیکر آسانی پیدا کرنا جیسے سفر میں نماز ظہر کو عصر کیساتھ اور مغرب کو عشاء کیساتھ تاخیر کر کے پڑھنا وغیرہ.

تغییر:

کسی عبادت کو اس کی اصلی کیفیت سے ہٹ کر اس کی دوسری کیفیت سے ادا کرنے کی اجازت دیکر اس میں تخفیف کرنا جیسے : نماز خوف وغیرہ.

قاعدہ مذکورہ کی دلیل :

علماء کرام نے اس قاعدہ کیلئے نصوص قرآن  اور سنت  سے استدلال کیا ہے

قرآن سے اسکی دلیلیں: قرآن حکیم  میں اس قاعدہ کی بہت ساری دلیلیں ملتی ہیں ذیل میں چند دلیلوں کا ذکر کیا جاتا ہے

  1. اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:  [المائدة: ٦]  یعنی : اللہ تعالى تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا ہے .
  1. [البقرة: ١٨٥]  یعنی : اللہ تعالى تم سے آسانی کا برتاو کرناچاہتاہے تمہارے ساتھ دشواری کا معاملہ نہیں کرنا چاہتا.
  2. [الحج: ٧٨].  یعنی: اللہ تعالی نے دین  کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی.
  3. آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یسیروا ولا تعسروا یعنی: لوگوں کو آسانی کا پیغام دو اور مشقت اور دشوار سے پیش  نہ آو۔
  4. فرمان رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہے : إن ہذا الدین یسر ولن یشاد الدین أحد إلا غلبہ یعنی یہ دین  اسلام آسان ہے جو اس میں سختی سے کام لے گا وہ اس سے مغلوب ہو جائے گا
  5. آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے إرشاد فرمایا: لو لا أشق على أمتی لأمرتہم بالسواک عند کل صلاۃ یعنی اگر میں اپنی امت پر گراں نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا.

اس قاعدہ کی شرطیں:

علماء کرام نے اس قاعدہ کی تین شرطیں ذکر کی ہیں :

  1. مشقت یقینی طور پر موجود ہو وہمی اور خیالی مشقت نہ ہو .
  2. وہ مشقت عام ہو نادر اور نایاب نہ ہو جیسے سلس البول کا مریض ہرنماز کے وقت وضوء کرے گا کیونکہ یہ نادر عذر ہے اسی طرح مستحاضہ عورت .
  3. سہولت اور رخصت نصوص شریعت کے متصادم نہ ہو.

قاعدہ المشقة تجلب التيسير: مشقت آسانی کا سبب ہے کی مثالیں:

اس قاعدہ کے تحت بہت سارے فقہی مسائل آتے ہیں ہم ذیل چند کا ذکر کررہے ہیں.

  1. سفر میں نماز کو جمع کرنا اورقصر کیساتھ پڑھنا .
  2. مسافر کیلئے جمعہ کا ساقط ہوناز
  3. کوئی حلال کھانا نہ ملنے پر مردے کا گوشت کھانا.
  4. زبردستی اور لاچارگی کے وقت کفری کلمہ تلفظ کرنے کا جواز.
  5. اگر شفعہ کے حقدار کو خرید وفروخت کا علم نہ ہو شفعہ کی طلب میں تاخیر جائز ہے .
  6. عذر پیش آنے پر کوئی محظورات احرام کا ارتکاب کرنے پر کفارہ کا نظام . وغیرہ.

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button