مضامین

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت (فضل اور احسان) کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور ایسا لشکر بھیجا جس کو تم نے نہیں دیکھا تھا ۔ اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے تم پر حملہ آور ہوئے ۔ جب تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آ نے لگے تھے اور تم اللہ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے۔

 (الاحزاب : ١٠۔ ٩)

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

غزوۃ الا حزاب کا واقعہ

حافظ عمادلدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر یہ فضل اور احسان فرمایا کہ ان کے دشمن حملہ آوروں کو ان کے شہر مدینہ سے بھگا دیا اور ان کو شکست فاش دی ۔ جب ان دشمنوں کی مختلف جماعتیں ایک ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوئی تھیں ۔ یہ پانچ ہجری شوال کا مہینہ تھا اور اس غزوہ کا نام غزوہ خندق اور غزوۃ الاحزاب رکھا گیا تھا۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

امام موسیٰ بن عقبہ وغیرہ نے یہ بیان کیا ہے کہ غزوۃ الاحزاب کا سبب یہ تھا کہ بنو نضیر کے جن یہودی سرداروں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا تھا ۔ ان میں سے سلام بن ابی الحقیق ۔ سلام بن مشکم ۔ اور کنانہ بن الربیع مکہ مکرمہ گئے ۔ اور قر یش کے سرداروں سے ملاقات کی ۔ اور انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کی بھر پور مدد کریں گے ۔ قریش نے ان کے ساتھ اتفاق کرلیا ۔ پھر وہ غطفان کے پاس اور ان کو بھی آپ کے خلاف جنگ پر تیار کرلیا ۔ قریش نے مکہ کے گردونواح سے اپنے موافقین کو اکٹھا کرلیا ۔ ان کے لشکر کا قائد ابو سفیان صحر بن حرب تھا اور غطفان کا قائد عیینہ بن حصین بن بدر تھا ۔ پھر دس ہزار افراد کا لشکر تیار ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑھا ۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمن کی پیش قدمی کی خبر سنی تو آپ نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورہ سے مدینہ کی مشرقی جانب خندق کھود نے کا حکم دیا ۔ سو مسلمان مدینہ کے گرد خندق کھود نے لگے ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے ساتھ خندق کھودنے اور مٹی نکالنے کے عمل میں شریک تھے ۔ اور خندق کھود نے میں متعد معجزات کا ظہورہوا تھا۔ مشرکین مدینہ کی مشرقی جانب احد پہاڑ کے آکر ٹھہرے تھے یہ مدینہ کا نچلا حصہ تھا اور دشمن کا دوسرا گروہ مدینہ کی زمین کے بالائی حصہ میں ٹھہرا تھا۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : جب کفار تمارے اوپر اور تمہارے نیچے سے تم پر حملہ آور ہوئے تھے ۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین ہزار اصحاب کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے ۔ آپ کی پشت پر سلع پہاڑ تھا اور دشمن آپ کے سامنے تھا ۔ آپ کے اور دشمن کے سواروں اور پیادوں کے درمیان خندق تھی ۔ اور خواتین اور بچے مدینہ کے شہر میں تھے ۔ اور مدینہ کی دونوں شرقی جانبوں میں یہود کی ایک جماعت بنو قریظہ تھی ۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا تو وہ مسلمانوں کی طرف سے مدافعت کریں گے ۔ ان میں سات سو جنگ جو تھے دشمن کی طرف سے حی بن اخطب النضری ان کے پاس گیا اور ان کو اس معاہدہ کے توڑ نے پر اکسایا ۔ حتی کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا ۔ اب صورت حال یہ تھی کہ باہر سے دس ہزار مشرکین نے مدینہ کے گرد گھیراڈالا ہوا تھا اور اندر سے سات سو یہودی غداری کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ پر کمر بستہ تھے ۔ یہ وہ منظر تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے اس طرح نقشہ کشی کی ہے۔ جب تمہاری آنکھیں پتھراگئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے ۔ اس وقت مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور ان کو شدت کے ساتھ جھنجھوڑ دیا گیا تھا ۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

دشمن نے ایک ماہ تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کا محاصرہ کیے رکھا لیکن ان کو خندق پار کرنے کی جرأت نہ ہوسکی ۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی جنگ کی نوبت نہیں آئی ۔ البتہ عمروبن عبدو دالعامری زمانہ جاہلیت میں مشہور شہ سوار تھا وہ اپنے ساتھ شہ سواروں کی ایک جماعت لے کر خندق کے پار مسلمانوں کے سروں پر پہنچ گیا ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو اس سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا ۔ کچھ دیر ان میں مقابلہ ہوا بالآخر حضرت علی (رض) نے اس کا سرقلم کردیا اور یہ مسلمانوں کی فتح اور نصرت کی علامت تھی۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

پھر اللہ تعالیٰ نے دشمن کے لشکر پر زبردست آندھی بھیجی جس سے ان کے تمام خیمے اکھڑ گئے ۔ ہر چیز تہس نہس ہوگئی ۔ وہ چولہے جلاسکتے تھے نہ کھانا پکاسکتے تھے اور وہ ناکام اور نامراد ہو کر واپس لوٹ گئے۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : باد صبا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد کو باد بور سے ہلاک کردیا گیا۔ غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٣٥۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٠)

مدینہ کے شمال سے مدینہ کے جنوب کی طرف چلنے والی ہوا کو باد صباکہتے ہیں اور اس کے برعکس چلنے والی ہوا کو بادبور کہتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کی ایک شب کو سخت سردی تھی اور بہت زبردست آندھی چل رہی تھی اس رات میرے ماموں حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے مجھے مدینہ بھیجا کہ میں کھانا اور لحاف لے آؤں ۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر روانہ ہوا ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تم کو جو میرے اصحاب ملیں ان سے کہنا کہ وہ میرے پاس آجائیں ۔ جب میں گیا تو زناٹے کی ہواچل رہی تھی ۔ مجھ کو جو مسلمان بھی ملا میں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچا دیا اور جس نے بھی یہ پیغام سنا وہ اسی وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روانہ وہ گیا حتی کہ کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا ۔ آندھی میری ڈھال کو دھکیل رہی تھی ۔ حتی کہ اسکا لوہا میرے پاؤں پر گر پڑا جس کو میں نے نیچے پھینک دیا۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اگر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ہوتا تو آپ کے ساتھ جہاد کرتا ۔ اور خوب لڑتا ۔ حضرت حذیفہ نے کہا تم ایسا کرتے ! مجھے وہ منظر یاد ہے کہ غزوہ احزاب میں ہم ایک شب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے وہ ایک سردرات تھی اور بہت تیز آندھی چل رہی تھی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو ! کوئی ایسا شخص ہے جو کفار کی خبریں حاصل کر کے آئے ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے گا ۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے بھی جواب نہیں دیا ۔ آپ نے پھر فرمایا کوئی ایسا شخص ہے جو کفار کی خبریں حاصل کر کے آئے۔ قیامت کے دن اللہ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے گا ۔ ہم پھر خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے جواب نہیں دیا ۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

آپ نے فرمایا : اے حذیفہ ! تم جاؤ اور کفار کی خبریں حاصل کرکے آؤ ۔ جب آپ نے میرا نام لے کر پکارا تو میرے لیے اٹھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا ۔ آپ نے فرمایا جاؤ کفار کی خبریں حاصل کر کے آؤ اور ان کو میرے خلاف غضب میں نہ لانا ۔ جب میں ان کی طرف روانہ ہوا تو یوں لگتا جیسے میں گرم حمام میں چل رہا ہوں  ۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پیٹھ کو آگ سے سینک رہا ہے ۔ میں نے کمان پر تیر چڑھا کر اس کو تیر مارنے کا ارادہ کیا ۔ پھر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد یاد آیا کہ ان کو میرے خلاف غضب میں نہ لانا ۔ اگر میں اس وقت تیر مارتا تو بلاشبہ وہ نشانے پر لگتا ۔ میں واپس اس حال میں لوٹا کہ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں گرم حمام میں چل رہا ہوں  ۔

 جب میں آپ کے پاس واپس پہنچا تو میں نے آپ کفار کی خبریں بیان کیں ۔ جب میں فارغ ہوا تو مجھے سردی لگنے لگی ۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چادر کو اوڑھ کر نماز پڑھ رہے تھے آپ نے اس کا ایک پلو مجھے اوڑھا دیا ۔ میں اس کو اوڑھ کر صبح تک سوتا رہا ۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا : اے بہت سونے والے اٹھ جا !۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

(صحیح مسلم اکتاب الجہاد : ٩٩۔ رقم الحدیث : ١٧٨٨۔ الرقم المسلسل : ٤٥٥٩ )

غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

اس رات سخت سردی تھی اور آندھی چل رہی تھی ۔ لیکن حذیفہ (رض) چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں جارہے تھے ۔ اس لیے آپ کو باکل سردی نہیں لگی اور نہ آندھی کے تھپیڑے لگے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے ان کو یوں لگا گویا کہ وہ حمام میں چل رہے ہیں واپسی میں بھی ان پر سردی اور آندھی کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ حتی کہ وہ آرام اور عافیت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے اور جیسے ہی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی خبریں بیان کرکے فارغ ہوئے ان پر موسم کا اثر ہوا اور سردی لگنے لگی حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکو کمبل اوڑھا دیا ۔ اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عظیم معجزہ ہے۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان

(شرح النواوی علی صحیح مسلم ج ٨ ص ٤٩٧٦۔ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ۔ ١٤١٧ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی لکھتے ہیں : ۔

اللہ تعالیٰ نے پر فرشتوں کو بھیجا ۔ انہوں نے خیموں کی رسیاں کاٹ دیں  اور میخیں اکھاڑدیں۔ اور دیگچیاں الٹی کردیں اور ان کی جلائی ہوئی آگ بجھا دی  اور ان کے گھوڑے بدک کر بھاگنے لگے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر خوف اور رعب طاری کردیا  اور لشکر کے چاروں طرف فرشتے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے حتی کہ ہر خیمہ کا سردار بلند آواز سے یہ کہنے لگا ۔ اے بنو فلاں ! یہاں میرے پاس آؤ حتی کہ جب وہ لوگ اس کے پاس آگئے تو وہ کہنے لگا : نجات کو طلب کرو ۔ نجات کو طلب کرو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دلوں میں رعب طاری کردیا گیا تھا۔غزوۃ الا حزاب میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور احسان کا بیان


ماخوذ از کتاب: ۔

تبیان القران از غلام رسول سعیدی

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button